بہت دور کسی شہر میں ایک بڑھئی کی دکان تھی۔ وہ سارا دن
جاوید بسام بہت دور کسی شہر میں ایک بڑھئی کی دکان تھی۔ وہ سارا دن اپنی دکان میں لکڑی کاٹتا یا کیلیں ٹھوکتا نظر آتا تھا۔ اس کا ایک بیٹا بھی تھا، جس کا نام حسن تھا۔ حسن بہت فرماں بردار لڑکا تھا۔ جلد ہی کام سیکھ کر وہ کام میں باپ کی مدد کرنے لگا، مگر کچھ دن ہی گزرے تھے کہ وہ اپنے کام سے بے زار ہو گیا۔
باپ اسے کوئی چیز بنانے کو دیتا تو وہ بے دلی سے اسے شروع کرتا ، ابھی کام پورا بھی نہ ہوتا کہ وہ ہاتھ روک لیتا اور اٹھ کر باہر نکل جا تا۔ باپ پریشان تھا کہ وہ ایسا کیوں کرتا ہے۔ آخر ایک دن اس نے حسن سے اس رویے کا سبب پوچھا تو حسن بولا : بابا! میں یہ دروازے کھڑکیاں اور میز کرسیاں نہیں بنانا چاہتا، میں کوئی ایسی چیز بناوٴں گا ، جو آج تک کسی نے نہ بنائی ہوباپ نے حیرت سے اس کی بات سنی اور پوچھا کہ وہ کیا بنانا چاہتا ہے لیکن حسن کے پاس اس کا کوئی جواب نہ تھا، کیوں کہ اسے خود نہیں معلوم تھا کہ وہ کیا بنانا چاہتا ہے۔
آخر باپ نے اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا۔ حسن اس کا اکلوتا بیٹا تھا اور وہ اسے بہت چاہتا تھا۔دن گزرتے رہے۔ حسن روز دکان پر آ تا۔ باپ کو کام کرتا دیکھتا، پھر اٹھ کر کہیں چلا جاتا۔ وہ ہر وقت سوچ میں گم اور اداس رہتا، کیوں کہ اسے اس بات کا احساس تھا کہ وہ کام میں اپنے باپ کی مدد نہیں کر رہا۔
ایک دن شام کے وقت حسن دکان میں خاموش بیٹھا تھا۔ باپ شہر کے ایک امیر آدمی کے لیے ایک عالی شان کرسی بنا رہا تھا۔ جب وہ بہت تھک گیا تو اس نے کام ختم کر کے گھر جانے کا فیصلہ کیا اور حسن سے بولا :” میں گھر جا رہا ہوں ، تم دکان بند کر کے آ جانا۔
“وہ رکا، پھر کچھ توقف کے بعد بولا: اگر دل چاہے تو اس کرسی کے دونوں بازو بنا دینا۔ مجھے یہ کرسی جلدی دینی ہے اور کام بہت زیادہ ہے۔“ یہ کہ کر وہ دکان سے باہر نکل گیا۔حسن نے کرسی کو دیکھا اور ٹھنڈی سانس لے کر بولا:” یہ کرسی بنانا کون سا کمال ہے۔
اور سوچ میں ڈوب گیا۔ کچھ دیر بعد اندھیرا ہوگیا۔ اس نے اٹھ کر چراغ جلایا اور دوبارہ بیٹھ گیا۔ گھر جانے کو اس کا دل نہیں چاہ رہا تھا۔ اسی طرح نہ جانے کتنا وقت گزر گیا۔ اسے نیند آنے لگی تو اس نے گھر جانے کا ارادہ کیا۔ اچا نک اوز ار رکھنے کی الماری پر سے کچھ کھٹ پٹ کی آواز سنائی دی۔
اس نے نظر اٹھائی تو کسی کو اس پر چلتے دیکھا۔ اسے لگا کہ وہ چوہے ہیں، لیکن وہ انسانوں کی طرح چل رہے تھے۔ انھوں نے پتلی سی رسی کا گولا نیچے پھینکا اور اس کے ذریعے سے ایک ایک کر کے نیچے اترنے لگے۔ وہ تین بونے تھے۔ حسن کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا۔
اس نے آنکھیں مل کر دوبارہ دیکھا۔ وہ اس کے سامنے میز پر اتر آئے تھے۔ پہلا بونا ایک شوخ نوجوان ، دوسرا سفید لمبی داڑھی والا بوڑھا تھا اور تیسری موٹا سا چشمہ لگائے ایک بونی تھی۔آپ لوگ کون ہیں؟ حسن نے ہمت کر کے پوچھا۔ نوجوان آگے بڑھا اور بولا: ”میں کام“ ہوں۔
“ بوڑھے نے قدم بڑھا کرکہا میں” تجر بہ“ ہوں ‘ ‘ پھر بونی نے دید ے گھمائے اور کہا : میں ”عقل‘ ہوں۔“کیا مطلب ؟، حسن کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا۔تجربے نے اپنی داڑھی پر ہاتھ پھیرا اور بولا:” ہم تینوں دوست ہیں۔ ہم ہمیشہ ساتھ ساتھ رہتے ہیں، اگر کبھی الگ بھی ہوں تو کچھ دنوں بعدمل جاتے ہیں۔
حسن نے کہا: میں اب بھی آپ کی بات نہیں سمجھا۔“تجربہ اُچک کر ایک ہتھوڑے پر بیٹھ گیا۔ کام اور عقل اس کی حرکت پر مسکرائے۔ بوڑھا تجر بہ بولا:” جب کوئی انسان کچھ کرنا چاہتا ہے تو سب سے پہلے وہ کام شروع کرتاہے تو میرا یہ نوجوان دوست اس کے ساتھ لگ جاتا ہے۔
کچھ عرصے بعد میں یعنی تجربہ اس کے پاس آ جا تا ہوں۔ تجربے کے آنے سے میری یہ بہن عقل آتی ہے اور وہ اپنا کام ٹھیک طریقے سے کرنے لگتا ہے۔حسن نے پوچھا: ”آپ لوگ یہاں کیا کر رہے ہیں؟تجربہ بولا: ہمیں پتا چلا ہے کہ یہاں کچھ گڑ بڑ ہے۔
تم ہماری ترتیب خراب کر رہے ہو۔ تم کام شروع کرتے نہیں اور عقل کو آوازیں دیتے رہتے ہو۔عقل نے اپنی بڑی بڑی آنکھیں گھماتے ہوئے منہ بنایا۔ حسن اُلجھ کر بولا ” میں آپ کی بات نہیں سمجھ پارہا ہوں۔“تجربے نے گہری سانس لی اور بولا : سنو! تم کوئی اہم چیز بنانا چاہتے ہوں لیکن نہیں بنا پا رہے ہو۔
ہاں ، یہ بات ٹھیک ہے۔‘حسن شرمندگی سے بولا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تم بغیر زینہ چڑھے او پر جا نا چاہتے ہو۔“ حسن نے پوچھا: پھر مجھے کیا کرناچاہیے؟‘اس کی سمجھ میں ان کی باتیں آنے لگی تھیں۔بونا مسکرا کر بولا: تمھیں کام شروع کر دینا چاہیے، چاہے جیسا بھی کام ہو۔
کسی غریب کی چارپائی کے پائے بدلنے ہوں یا کسی بڑھیا کو سردی سے بچانے کے لیے کھڑکی جیسی معمولی چیز بنانی ہو، تم بس کام کرو۔ کچھ عرصے میں تمھیں تجر بہ ہو جائے گا اور پھرعقل خود بخو دتمھارے پاس آ جائے گی اور پھر شاید تم کوئی انوکھی چیز بھی بنا لو۔
جب کہ میرے نزدیک تو وہ معمولی تختی بھی بہت اہم ہے، جس پر لکھ کر پر علم حاصل کرتے ہیں۔حسن سر ہلانے لگ
اپنی دکان میں لکڑی کاٹتا یا کیلیں ٹھوکتا نظر آتا تھا۔ اس کا ایک بیٹا بھی تھا، جس کا نام حسن تھا۔ حسن بہت فرماں بردار لڑکا تھا۔ جلد ہی کام سیکھ کر وہ کام میں باپ کی مدد کرنے لگا، مگر کچھ دن ہی گزرے تھے کہ وہ اپنے کام سے بے زار ہو گیا
جاوید بسام بہت دور کسی شہر میں ایک بڑھئی کی دکان تھی۔ وہ سارا دن اپنی دکان میں لکڑی کاٹتا یا کیلیں ٹھوکتا نظر آتا تھا۔ اس کا ایک بیٹا بھی تھا، جس کا نام حسن تھا۔ حسن بہت فرماں بردار لڑکا تھا۔ جلد ہی کام سیکھ کر وہ کام میں باپ کی مدد کرنے لگا، مگر کچھ دن ہی گزرے تھے کہ وہ اپنے کام سے بے زار ہو گیا۔
باپ اسے کوئی چیز بنانے کو دیتا تو وہ بے دلی سے اسے شروع کرتا ، ابھی کام پورا بھی نہ ہوتا کہ وہ ہاتھ روک لیتا اور اٹھ کر باہر نکل جا تا۔ باپ پریشان تھا کہ وہ ایسا کیوں کرتا ہے۔ آخر ایک دن اس نے حسن سے اس رویے کا سبب پوچھا تو حسن بولا : بابا! میں یہ دروازے کھڑکیاں اور میز کرسیاں نہیں بنانا چاہتا، میں کوئی ایسی چیز بناوٴں گا ، جو آج تک کسی نے نہ بنائی ہوباپ نے حیرت سے اس کی بات سنی اور پوچھا کہ وہ کیا بنانا چاہتا ہے لیکن حسن کے پاس اس کا کوئی جواب نہ تھا، کیوں کہ اسے خود نہیں معلوم تھا کہ وہ کیا بنانا چاہتا ہے۔
آخر باپ نے اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا۔ حسن اس کا اکلوتا بیٹا تھا اور وہ اسے بہت چاہتا تھا۔دن گزرتے رہے۔ حسن روز دکان پر آ تا۔ باپ کو کام کرتا دیکھتا، پھر اٹھ کر کہیں چلا جاتا۔ وہ ہر وقت سوچ میں گم اور اداس رہتا، کیوں کہ اسے اس بات کا احساس تھا کہ وہ کام میں اپنے باپ کی مدد نہیں کر رہا۔
ایک دن شام کے وقت حسن دکان میں خاموش بیٹھا تھا۔ باپ شہر کے ایک امیر آدمی کے لیے ایک عالی شان کرسی بنا رہا تھا۔ جب وہ بہت تھک گیا تو اس نے کام ختم کر کے گھر جانے کا فیصلہ کیا اور حسن سے بولا :” میں گھر جا رہا ہوں ، تم دکان بند کر کے آ جانا۔
“وہ رکا، پھر کچھ توقف کے بعد بولا: اگر دل چاہے تو اس کرسی کے دونوں بازو بنا دینا۔ مجھے یہ کرسی جلدی دینی ہے اور کام بہت زیادہ ہے۔“ یہ کہ کر وہ دکان سے باہر نکل گیا۔حسن نے کرسی کو دیکھا اور ٹھنڈی سانس لے کر بولا:” یہ کرسی بنانا کون سا کمال ہے۔
اور سوچ میں ڈوب گیا۔ کچھ دیر بعد اندھیرا ہوگیا۔ اس نے اٹھ کر چراغ جلایا اور دوبارہ بیٹھ گیا۔ گھر جانے کو اس کا دل نہیں چاہ رہا تھا۔ اسی طرح نہ جانے کتنا وقت گزر گیا۔ اسے نیند آنے لگی تو اس نے گھر جانے کا ارادہ کیا۔ اچا نک اوز ار رکھنے کی الماری پر سے کچھ کھٹ پٹ کی آواز سنائی دی۔
اس نے نظر اٹھائی تو کسی کو اس پر چلتے دیکھا۔ اسے لگا کہ وہ چوہے ہیں، لیکن وہ انسانوں کی طرح چل رہے تھے۔ انھوں نے پتلی سی رسی کا گولا نیچے پھینکا اور اس کے ذریعے سے ایک ایک کر کے نیچے اترنے لگے۔ وہ تین بونے تھے۔ حسن کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا۔
اس نے آنکھیں مل کر دوبارہ دیکھا۔ وہ اس کے سامنے میز پر اتر آئے تھے۔ پہلا بونا ایک شوخ نوجوان ، دوسرا سفید لمبی داڑھی والا بوڑھا تھا اور تیسری موٹا سا چشمہ لگائے ایک بونی تھی۔آپ لوگ کون ہیں؟ حسن نے ہمت کر کے پوچھا۔ نوجوان آگے بڑھا اور بولا: ”میں کام“ ہوں۔
“ بوڑھے نے قدم بڑھا کرکہا میں” تجر بہ“ ہوں ‘ ‘ پھر بونی نے دید ے گھمائے اور کہا : میں ”عقل‘ ہوں۔“کیا مطلب ؟، حسن کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا۔تجربے نے اپنی داڑھی پر ہاتھ پھیرا اور بولا:” ہم تینوں دوست ہیں۔ ہم ہمیشہ ساتھ ساتھ رہتے ہیں، اگر کبھی الگ بھی ہوں تو کچھ دنوں بعدمل جاتے ہیں۔
حسن نے کہا: میں اب بھی آپ کی بات نہیں سمجھا۔“تجربہ اُچک کر ایک ہتھوڑے پر بیٹھ گیا۔ کام اور عقل اس کی حرکت پر مسکرائے۔ بوڑھا تجر بہ بولا:” جب کوئی انسان کچھ کرنا چاہتا ہے تو سب سے پہلے وہ کام شروع کرتاہے تو میرا یہ نوجوان دوست اس کے ساتھ لگ جاتا ہے۔
کچھ عرصے بعد میں یعنی تجربہ اس کے پاس آ جا تا ہوں۔ تجربے کے آنے سے میری یہ بہن عقل آتی ہے اور وہ اپنا کام ٹھیک طریقے سے کرنے لگتا ہے۔حسن نے پوچھا: ”آپ لوگ یہاں کیا کر رہے ہیں؟تجربہ بولا: ہمیں پتا چلا ہے کہ یہاں کچھ گڑ بڑ ہے۔
تم ہماری ترتیب خراب کر رہے ہو۔ تم کام شروع کرتے نہیں اور عقل کو آوازیں دیتے رہتے ہو۔عقل نے اپنی بڑی بڑی آنکھیں گھماتے ہوئے منہ بنایا۔ حسن اُلجھ کر بولا ” میں آپ کی بات نہیں سمجھ پارہا ہوں۔“تجربے نے گہری سانس لی اور بولا : سنو! تم کوئی اہم چیز بنانا چاہتے ہوں لیکن نہیں بنا پا رہے ہو۔
ہاں ، یہ بات ٹھیک ہے۔‘حسن شرمندگی سے بولا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تم بغیر زینہ چڑھے او پر جا نا چاہتے ہو۔“ حسن نے پوچھا: پھر مجھے کیا کرناچاہیے؟‘اس کی سمجھ میں ان کی باتیں آنے لگی تھیں۔بونا مسکرا کر بولا: تمھیں کام شروع کر دینا چاہیے، چاہے جیسا بھی کام ہو۔
کسی غریب کی چارپائی کے پائے بدلنے ہوں یا کسی بڑھیا کو سردی سے بچانے کے لیے کھڑکی جیسی معمولی چیز بنانی ہو، تم بس کام کرو۔ کچھ عرصے میں تمھیں تجر بہ ہو جائے گا اور پھرعقل خود بخو دتمھارے پاس آ جائے گی اور پھر شاید تم کوئی انوکھی چیز بھی بنا لو۔
جب کہ میرے نزدیک تو وہ معمولی تختی بھی بہت اہم ہے، جس پر لکھ کر پر علم حاصل کرتے ہیں۔حسن سر ہلانے لگ
Comments